ننگے پاؤں سماجی تعمیر کی طرف: یاسمین لاری کے ساتھ گفتگو- حصہ اول
(حصہ اول)
آرکیٹیکٹ (عمارت کار) وقت کے ساتھ ہی پختہ ہوتے ہیں۔ مگر یاسمین لاری کو ء۱۹۶۷ میں اپنے کیرئیر کے آغاز میں کامیابی نصیب ہوئی اور گزشتہ ساٹھ سال سے اس شعبے کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے۔ سن ۲۰۰۵ ء میں ان کی دلچسپی وہیں پر لوٹی جہاں سے انہوں نے سفر کا آغاز کیا تھا، یعنی غریبوں کے لئے گھر اور تعمیراتی مسائل کا حل، جس کو وہ " سماجی بھلائ" کہتی ہیں۔ سن ۲۰۲۰ ء میں انہوں نے جین ڈریو ایوارڈ بھی حاصل کیا جو خاص طور پہ خواتین آرکیٹیکٹس کے کام کو سراہتا ہے-
پینتالیس سال پہلے یاسمین لاری نے لاہورمیں ایک مضافات میں گھر تعمیر کرنے کے حکومتی منصوبے کا کمیشن حاصل کیا۔ سن ۱۹۷۵ ۶ میں مکمل ہونے والا یہ منصوبہ انگوری باغ ، کم آمدنی والے لوگوں کے لئے مکانوں کی تعمیرات کی ایک اہم مثال بنا۔ جس میں زیادہ ترمقامی طور پر میسر تعمیری سامان اور مقامی مزدور ہی استعمال کیے گئے۔ لاری نے اپنی تخلیق کے لئے تخیل اندرون لاہور کی کثیرالمنزلہ عمارتوں سے اخذ کیا جہاں بہت سے خاندان بیک وقت رہائش پزیر ہو تے تھے۔ مغلوں کی بنی ہوئی یہ عمارتیں ایک گنجان آباد شہری علاقے میں بنائی جاتی تھیں۔ اور لاری کے لئے اصل چیلنج یہ تھا کہ اسی پرانے طرز پر بنے ہوئے گھروں کے مربوط نظام کو نئی عمارتوں میں جدید ضروریات کے مطابق ترتیب دیں۔ نتیجاً ۷۸۷ اپارٹمنٹس تعمیر کیے جو کہ ایک دوسرے سے متصل بھی تھے۔
تعمیر میں مقامی طور پر دستیاب اینٹوں اور سٹیل کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ایک سے دو کمروں کے روشن اور ہوا دار اپارٹمنٹس تھے جن میں مویشی رکھنے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ یہ کام حسن فاطی کے تعمیراتی کام سے مماثلت رکھتا ہے جو انہوں نے سن ۶۱۹۴۰ میں گورنا گاؤں میں کیا۔ لیکن انگوری باغ آنے والے وقت کے لئے ایک ترقی پسند تعمیراتی طرز کے طور پر اپنا مقصد حاصل نہ کر پایا۔ حکومت کے غلط اقدامات اور پراجیکٹ کی مقبولیت کے پیش نظر غریبوں کے بجائے یہ اپارٹمنٹس متوسط طبقے کے لوگوں کو دے دئیے گئے ۔انگوری باغ کا کمپلیکس آج بھی محدود آمدنی کے لوگوں کے لئے پاکستان میں تعمیر کیا جانے والا ایک بہترین پراجیکٹ مانا جاتا ہے۔
لاری کو سن ۱۹۸۰ء میں آرکیٹیکٹس انسٹیٹوٹ آف پاکستان کی صدر ہونے کا اعزازحاصل ہوا ۔ حکومت پاکستان نے انہیں نئے گھروں کی پالیسی بنانے کا اہم کام سونپا۔ اگرچہ ان کی دلچسپی گھروں کی تعمیرات میں تھی جن میں نجی گھروں سے لے کر آرمی کے لئے بیرکوں کی تعمیر بھی شامل تھی مگر اس کے علاوہ انہوں نے بہت سے کاروباری پراجیکٹ بھی کیے۔ کراچی میں جہاں ان کا دفتر تھی لاری نے بہت سی مشہور عمارتیں تخلیق کیں۔ جن میں تاج محل ہوٹل اور سن ۱۹۸۱ ء میں فنانس اورٹریڈ سنٹر(۱۹۸۰-۱۹۸۹) شامل ہیں۔
بہت سی جہتوں میں لاری کا تعمیراتی کام بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں موجود آرکیٹیچر کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔ جس میں ابتدا میں ۱۹۷۰ میں سماجی ضرورتوں کے لئے تعمیرات سے لے کر آنے والے وقت میں "نیو لبرل" اور "پوسٹ ماڈرن" آرٹکیٹیکچر اور آج کل آمدنی اور کم کاربن عمارات میں نظر آتا ہے (تصویر نمبر۱)۔
ایک جدید تحقیقاتی طرز پر کام کرتے ہوئے فاؤنڈیشن نے کراچی کے برطانوی راج کے دور کے طرز تعمیر کی حامل اہم عمارات کتابیں کی شائع کی ہیں، ٹھٹھہ میں موجود قدیم اور مقامی عمارات کے نقشے اور تصاویر محفوظ کی ہیں اور اس کے علاوہ مکلی میں سمہ اور ترکھان جیسی اہم تاریخی مقامات کی تعمیری معلومات کو جدید سائنسی طرز پر حاصل کر کے محفوظ کرنے کا کام انجام دیا ہے ۔
فاؤنڈیشن کا کام اب ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہوا کچھ مزید بدل گیا ہے۔ اور اب اس میں آفت زدہ علاقوں میں امداد اور آفات سے متاثرہ علاقوں کی دوبارہ تعمیر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی حفاظت کے لئے کام بھی فاؤنڈیشن کے مقاصد میں شامل ہے ۔
لاری کے مطابق ۲۰۰۵ء میں پاکستان کے شمالی علاقہ کا آیا زلزلہ ایک فیصلہ کن موقع تھا جہاں انہیں چار لاکھ سے زائد لوگوں کے لئے بنیادی رہائش ضروریات فراہم کرنے کا دشوار ترین کام کا سامنا ہوا۔ لاری نے مقامی اور عالمی امدادی اداروں کے ساتھ مل کر اس مشکل ترین کام سے نبرد آزما ہونے کے لئے کمر کسی ۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کے لمبے کیرئیر کے ایک نیا مرحلہ کا آغاز بھی ہوا۔ یہ ایک نیا آغاز بھی تھا اور دیکھا جائے تو ایک طرح سے ان کے اصل مقصد کی جانب لوٹ کر واپس آنا بھی ۔
میں یاسمین لاری کو گذشتہ کئی سالوں سے جانتی ہوں، ذاتی طور پر بھی اور ان کے تعمیراتی کام اور تحریروں سے بھی۔ مسز لاری جیسے کہ وہ پاکستان میں جانی جاتی ہیں ایک اعلیٰ پائے کی دوربین آرکیٹیکٹ اور پیشہ ور خاتون ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انتہائی بلند ارادہ اور دریا دل بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے میرے علمی سفر میں بھی متاثر کیا جس میں مجھے ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی طرف دیکھنا سکھایا۔ اور اپنے شعبے میں دیانتدار سے کام کرنے کی ترغیب دی۔ ہم نے گزشتہ ماہ کے دوران کئی مرتبہ ان کے موجودہ کام کے بارے میں گفتگو کی جس کو وہ "بیرفٹ سوشل آرکیٹیکچر(باسا)" کہتی ہیں ۔ (لفظی ترجمے کے مطابق ننگے پاؤں کا سماجی تعمیری کام) اور گفتگو میں اس کام کی ان کے ابتدائی کام کے ساتھ جدت کو بھی موضوع بنایا۔
ذیل میں اس گفتگو کے چند اقتسابات موجود ہیں :
کشور رضوی : گفتگو کے لئے وقت نکالنے پر آپ کا بہت شکریہ! اس کووڈ کے زمانےنے آپ کے دیہاتی علاقوں میں کام پر کیسا اثر کیا؟
یاسمین لاری : بی بی سی پر میری گفتگو کو بہت پذیرائ ملی اور مجھے بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا۔ مگر چونکہ میں کوئی گھر بنانے والا ڈویلپر یا ٹھیکیدار نہیں ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان معلومات کو میں عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے کیا طریقہ اختیار کروں۔ میرا خیال ہے سب سے بہتر طریقہ یوٹیوب پر اس کے سبق بنا کر ڈالے جائیں۔ تاکہ غریب لوگ بھی اس کو دیکھ کر سیکھ سکیں۔ ہم زیرو کاربن چینل پر سبق اور وڈیو بنا کر ڈال رہیں ہیں کہ آپ کیسے بانسو ں اور مٹی سے بہترین گھر بنا سکتے ہیں چونکہ میں نے قدرتی آفات سے متاثر بہت ہی کم آمدنی والے لوگوں کے لئے ڈیزائن کیے تھے۔
بنیادی طور پر مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو حوصلہ دیا جائے کہ آپ کو باہر سے بیرونی امداد کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے (تصویر نمبر۲)۔ آپ اپنی مدد آپ کے تحت بھی اس طرز کی تعمیر خود ہی کر سکتے ہیں ۔ بیشتر دیہاتی لوگوں کے پاس زمین کی ملکیت بھی نہیں ہے اس لیے تعمیر اور عزت سے جینے کے لئے ان کے پاس محدود ہی راستے ہیں۔ یہ بہت ہی غلط ہے مگر ہمیں اسی نظام میں رہ کر ہی کام کر نا ہے ۔
کشور رضوی : میں چاہوں گی کہ ہم دوبارہ مساوات اور باعزت طرزِ رہائش کے موضوع کی طرف لوٹیں۔ اور یہ کہ آرکیٹیکٹ کس طرح سماجی بھلائی کے استعمال ہو سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے موجودہ کام کی جڑیں آپ کے اولین پراجیکٹ میں موجود ہیں اور اس لیے ہم اپنے پڑھنے والوں کو آپ کے پرانے کام کی جانب لے جاتے ہیں۔ کیا آپ باسا اورانگوری باغ کے درمیان کوئی تعلق دیکھتی ہیں اور کیا آپ کے اولین کام میں ہی آج کے آپکے موثر اور مستحکم تعمیر کے آثار موجود تھے۔
یاسمین لاری : پیچھے مڑ کر دیکھوں تو میں سوچتی ہوں کہ میں بہت خوش نصیب رہی۔ سن ۱۹۶۳ ء میں آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی آف آرکیٹیکچر جانے سے پہلے مجھے پائداری اور تاریخی عمارات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہ تھیں۔ میں اور میرے مرحوم خاوند بہت سے پرانے شہروں اور قصبوں میں گھومنے گئے اور ہمارے لئے ایک نیا جہاں کُھل گیا ۔
انگوری باغ کے ذریعے میں نے اندرون لاہور کی طرز رہائش کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جہاں کثیرالمنزلہ عمارات موجود ہیں اور جہاں خواتین کے لئے مخصوص رہائشی حصے ہیں مثلاً چھتیں اور کوٹھے (تصویر نمبر۳)۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہونے والی تعمیرات میں سڑکیں تھیں اور دومنزله عمارتیں تھیں جو کہ زیادہ تر خالی ہی رہیں ۔ وہ لوگوں کو متاثرہ نہ کر سکیں۔ جب میں پنجاب کے تاریخی شہروں میں گئی تو انہیں زندگی سے بھرپور پایا ۔ تمام لوگ ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے تھے اور خوب باہمی میل جول نظر آرہا تھا ۔ وہاں میں نے لوگوں میں بہت خلوص اور یارانہ پایا۔ اور پھر میں نے سوچا کہ، اف یہ ہم نئی تعمیرات کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں ۔ مجھے پرانی طرز کی عمارات بہت ہی پسند ہیں ۔ کیونکہ وہ عورتوں کے لئے بہت مناسب تھیں۔ وہ اپنے گھروں کی چھتوں اور بالکونیوں سے اپنے ہمسائے میں دوسرے گھروں کی خواتین سے باتیں کر سکتیں تھیں۔
کشور رضوی : ہیریٹیج فاؤنڈیشن جس کی آپ نے ۱۹۸۰ء میں بنیاد رکھی نان- گورنمنٹ اداروں کے لئے ایک نئ مثال ثابت ہوئی۔ اس کے کام کے ذریعے آپ سندھ کی تعمیراتی اور ثقافتی تاریخ کا با آسانی مطالعہ کر سکتے ہیں جوکہ مکلی کے (۱۳۵۱-۱۵۲۴) عیسوی سے لے کر بطانوی راج ( ۱۸۵۸-۱۹۴۷) کے عرصے پر محیط ہے ۔
یاسمین لاری : اس زمانے میں یہاں ایک ہی محکمہ آثار قدیمہ ہوتا تھا جو۱۹۰۴ء میں انڈیا کے وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے قائم کیا تھا۔ جس کا مقصد تاریخی ورثہ کی حفاظت اور ریکارڈ رکھنا تھا۔ مجھے شہری تعمیرات میں زیادہ دلچسپی پرانے اندرونی لاہور میں کام کے دوران پیدا ہوئی ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر اس طرح کا کام ہو رہا تھا ۔ مثلاً بوسٹن امریکہ میں فریڈم ٹریل اور انگلستان میں سپیشل ٹرسٹ جو ۱۸۹۵ء میں قائم کیا گیا۔ میرا ماننا تھا کہ کراچی میں بہت سی تاریخی عمارات اور تاریخی ورثہ ضائع ہو رہا تھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے ورثے سے ایک عجب سا تعلق تھا ۔ کراچی برحال برطانوی راج کے دوران اس کا حصہ تھا اور لاہور اس کے مقابلے میں تاریخی مغل شہر تھا۔
سن۱۹۸۰ء میں ہم نے کراچی کا عمارتی ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا اوراس کام کے نتیجے میں اپنے بیٹے میہل لاری کے ساتھ ایک کتاب شائع کی جس کا نام The Dual City: Karachi During the Raj ھے۔ اب ہمارے پاس تقریباً سولہ سو عمارات کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے ۔ مگر ان میں سے بیشتر بہت ہی بری حالت میں ہیں اور مخدوش ہیں اوربند ہونے کے قریب ہیں ۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ ۱۹۹۴ء میں میں نے اپنی کاوشوں سے شہری تاریخی عمارت کا قانون پاس کروایا ۔ اس سے پہلے تاریخ عمارات اور جگہوں کے متعلق قانون موجود تھا مگر اس میں شہری علاقے جیسے ٹھٹھہ اور لاہور شامل نہ تھے (تصویر نمبر۵) ۔
بطورآرکیٹیکٹ میرا کام سن ۲۰۰۰ ۶ میں ختم ہو گیا۔ آخری عمارت اے بی این ایمبرو بینک تھا جہاں اب فیصل بنک ہے۔سن ۲۰۰۱ ۶ میں کاروان کراچی کے نام سے ایک سفر شروع ہوا ۔ جس کا مقصد کراچی کی چھ سو تاریخی عمارات کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا ۔
ہم ہراتوار کسی نئی عمارت پر اکٹھے ہوتے جہاں اس کے بارے میں لیکچر بھی ہوتا اور ثقافتی پروگرام بھی۔ اس میں گورنر سندھ سے لے کر عام عوام نے بھرپور حصہ لیا ۔ ہر قسم کے لوگوں نے جن میں خواتین بچے، استاتزہ ،طالب علم اورفنکار شامل تھے اور ان پروگراموں کاحصہ رہے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ تاریخی عمارات کی حفاظت اور اس قیمتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے صرف خواص ہی نہیں عوام بھی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اگر انہیں اس کا موقع دیا جائے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ایک پروگرام کے دوران ایک پولیس والے نے کہا کہ عام طور پر وی آئی پی لوگوں کے لئے راستے بند کیے جاتے ہیں مگر اب ہم عوام کے لئے بھی سڑکیں بند کر رہے ہیں تاکہ وہ شہر کی عمارتوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہو سکیں ۔
سن ۲۰۰۳ ۶ میں انگعبورگ برینز جو کہ اس وقت یونیسکو کی ملکی ڈائریکٹر تھی مجھے شاہی قلعہ لاہورکے عالمی ہیریٹیج کام کے لئے مشیر کے طور پر مدعو کیا۔ وہ بہت شاندار خاتون تھیں اور عملی طور پر خواتین کے برابری کے حقوق، اور ماحولیات کے لئے کام کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔ ہم نے مل کر برطانوی دور کی بہت سی غیر مطبوعہ ڈرائونگ ، نقشے اور دیگر دستاویزات جمع کیں ۔ اور ان کو شائع بھی کروایا۔ اس کے علاوہ ہم نے تعمیرات اور کام کی تصاویری ریکارڈ بھی جمع کیا اورقلعہ کا ماسٹر پلان بھی لکھا۔
مجھے شاہی قلعہ لاہور میں ہر جگہ جانے کی آزادی تھی اور مجھے ان راستوں پر چل کر بہت ہی اچھا لگا جہاں کبھی ملکہ نور جہاں چلا کرتی تھی۔
اس تحریر کا اردو ترجمہ زیب انساء عزیز نے کیا ھے-